واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت امام موسیٰ رضا

رضی اللہ تعالٰی عنہ

 

آپ کی ولادت باسعادت ۱۱ ذی القعد ۱۴۸ ہجری میں مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی۔ امام موسیٰ رضا   رضی اللہ تعالٰی عنہ  حضرت موسیٰ کاظم کے فرزند  تھے۔ آپ کا اسم گرامی علی , لقب رضا او ر کنیت ابوالحسن تھی۔ اگر آپ کوپورے نام ولقب کے ساتھ یاد کیا جائے تو امام الحسن علی بن موسیٰ رضا   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کہاجائے گا , والدہ گرامی کی کنیت ام البنین اور لقب طاہرہ تھا۔ نہایت عبادت گزار بی بی تھیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ کی ولادت سے تقریباً ایک ماہ قبل ۱۵ شوال کو آپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہاس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ اتنے عظیم حادثہ کے بعد جلد ہی اس مقدس مولود کے دنیا میں آجانے سے یقینًاگھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی۔آپ کی نشونما اور تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہکے زیر سایہ ہوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنہ اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئیں۔

امین کے قتل ہونے کے بعد سلطنت تو مامون کے نام سے قائم ہوگئی مگر یہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ امین ننھیال کی طرف سے عربی النسل تھا اور مامون عجمی النسل۔ امین کے قتل ہونے سے عراق کی عرب قوم اور ارکان سلطنت کے دل مامون کی طرف سے صاف نہیں ہوسکتے تھے بلکہ غم وغصہ کی کیفیت محسوس کرتے تھے۔ دوسری طرف خود بنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جو امین کی طرف دار تھی اس سے بھی مامون کو ہر وقت خطرہ لگا ہوا تھا۔

مامون کے حوالے سے ایک کتاب کے مصنف نے تحریر کیا ہےجب امین کااور میرا مقابلہ تھا اور بہت نازک حالت تھی اور عین اسی وقت میرے خلاف سیستان اور کرمان میں بھی بغاوت ہوگئی تھی اور خراسان میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور میری مالی حالت بھی ابتر تھی اور فوج کی طرف سے بھی اطمینان نہ تھا تو اس سخت اور دشوار ماحول میں میں نے خدا سے التجا کی اور منّت مانی کہ اگر یہ سب جھگڑے ختم ہوجائیں اور میں خلافت تک پہنچوں تو اس کو اس کے اصلی حقدار یعنی اولادِ فاطمہ میں سے جو اس کااہل ہو اس تک پہنچادوں۔ اسی نذر کے بعد سے میرے سب کام بننے لگے اور آخر تمام دشمنوں پر مجھے فتح حاصل ہوئی۔

آپ سادات کرام میں علم وفضل اور قدر و منزلت میں سب سے بر تر اور اعلٰی تھے۔یہی وجہ ہے کہ خلیفہ مامون الرشید نے اپنی صاحب زادی ام حبیب کا آپ کے ساتھ عقد کر دیا اور اپنی  مملکت کا شریک ومالک بنا لیا ۔

بنی عباس  نے اس عقد کی سخت مخالفت کی اور مامون الرشید کے دل سے آپ کی عظمت زائل کرنے کے لیےایک جید  عالم یحیی بن کثم سے مناظرہ کی تھانی۔مقررہ تاریخ پر تمام اراکین سلطنت اور علما کی موجودگی میں آپ نے تو اس کے سب سوالوں کے جوابات دے دئیے لیکن وہ آپ کے سوالوں کا جواب نہ دے سکا۔جس پر مامون الرشید نے بنی عباس کی طرف دیکھ کر کہا دیکھ لیا تم لوگوں نے۔مطلب یہ کہ ان کے پائے کا کوئی عالم نہیں۔مامون الرشید نے آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔

حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے اس ولی عہدی کوقبول تو کر لیا ۔ مگر کاروبار سلطنت میں میں خود دخل نہ دیتے تھے حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی حیثیت اپنے فرائض کے انجام دینے میں بالکل ایسے تھے جو ان کے پیش روحضرت علی مرتضی   رضی اللہ تعالٰی عنہاپنے زمانہ کی بااقتدار طاقتوں کے ساتھ اختیار کرچکےتھے۔ حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے اپنے دامن کو سلطنت   کےظلم کے اقدامات اور نظم ونسق سے بالکل الگ رکھا۔

بنی عباس مامون کے اس فیصلے سے قطعاً متفق نہ تھے انھوں نے بہت  دراندازیاں کیں مگر مامون نے صاف کہہ دیا کہ حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے بہتر کوئی دوسرا شخص تم بتادو اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے مناظرے بھی ہوے مگر ظاہر ہے کہ امام   رضی اللہ تعالٰی عنہکے مقابلہ میں کس کی علمی فوقیت ثابت ہوسکتی تھی , مامون کافیصلہ اٹل تھا اور وہ اس سے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلہ کو بدل دیتا۔

یکم رمضان ۱۰۲ ہجری کو جلسئہ ولی عہدی منعقد ہوا۔ بڑی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی۔ سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کو اشارہ کیا اور اس نے بیعت کی۔ پھر اوردوسرے لوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے چاندی کے سکے سرمبارک پر نثار کیے گئے اور تمام ارکانِ سلطنت وملازمین کو انعامات تقسیم ہوئے , مامون نے حکم دیا کہ حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کے نام کا سکّہ تیار کیا جائے , چنانچہ درہم ودینار پر حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے نام کا نقش ہوا اور تمام قلمرومیں وہ سکّہ چلایا گیا , جمعہ کے خطبہ میں حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کانام داخل کیا گیا۔

حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا اس سلطنت کی ولی عہدی پر فائز ہونا دنیا کے سامنے ایک نمونہ تھا کہ دین والے اگر دنیا کو پاجائیں تو ان کارویہ کیا ہوگا۔ یہاں حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ضرورت تھی کہ زہد اور ترک ُ دنیا کے مظاہرے اتنے ہی نمایاں تربنادیں جتنے تزک و احتشام کے دینی تقاضے زیادہ ہیں چنانچہ تاریخ نے اپنے کو دہرایا اور وہ حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے لباس میں علی المرتضی   رضی اللہ تعالٰی عنہکی سیرت دنیا کی نگاہوں کے سامنے آگئی۔ آپ نے اپنی دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کیے بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا , کھانا سامنے لایا جاتا تو دربان سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔

ایک شخص نے حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی خدمت میں عرض کی کہ خدا کی قسم آباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں۔ حضرت   رضی اللہ تعالٰی عنہنے فرمایا۔ ,, میرے آباواجداد کو جو شرف حاصل ہوا ہے وہ صرف تقویٰ , پرہیز گاری اوراطاعتِ خداسے.,, ایک شخص نے کسی دن کہا کہ، " والله اپ بہترین خلق ہیں۔" حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے فرمایا، "اے شخص حلف نہ اٹھا، جس کاتقویٰ وپرہیز گاری مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے۔"

اب حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو تبلیغ اسّلام کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہوگیا تھا جس کی بنیاد اس کے پہلے حضرت امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہاور امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہقائم کرچکے تھے مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ امام   رضی اللہ تعالٰی عنہکی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیت امام اور بحیثیت عالم دین اپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ   تو امام روحانی بھی ہیں اور ولی عہد ُ سلطنت بھی۔ اس لیے آپ کے دربار میں حاضر ہونے والوں کا دائرہ وسیع ہے۔

حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی تعداد اولاد میں شدید اختلاف ہے۔ علامہ مجلسی نے بحا را لا نوار جلد ۱۲ صفحہ ۲۶ میں کئی اقوال نقل کرنے کے بعد بحوالہ قرب الاسناد تحریر فرمایا ہے کہ آپ کے دو فرزند تھے۔ ایک امام محمد تقی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  دوسرے موسیٰ ۔ انوار نعمانیہ صفحہ ۱۲۷  میں ہے کہ آپ کے تین اولادتھی۔ انوار الحسینیہ جلد ۳ ص۵۲ میں ہے کہ آپ کے تین اولاد تھی۔ مگر نسل صرف امام محمد تقی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے جاری ہوئی۔ صواعق محرقہ ۱۲۳ میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ نو ار الابصار ۱۴۵ میں ہے کہ آپ پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ جن کے نا م یہ ہیں۔ امام محمد تقی۔حسن جعفر۔ ابراہیم ۔ حسین۔ عائشہ۔ روضتہ الشہداء ۲۳۸ میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے تھے جن کے نا م یہ ہیں ۔ امام محمد تقی ۔ حسن جعفر۔ ابراہیم۔ حسین۔ عقب اواز بزرگوارش محمدتقی است۔ مگر آپ کی نسل صرف امام محمد تقی سے بڑھی ہے۔ یہی کچھ رحمت للعالمین جلد ۲ص ۱۴۵ میں ہے۔ جنات الخلود ۳۲ میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ روضتہ الا حباب جمال الدین میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے تھے۔ کشف الغمہ ۱۱۰ میں ہے کہ آپ کے چھ اولاد تھی ۵ لڑکے ایک لڑکی یہی مطالب السول میں ہے۔ کنز الانساب ۹۶ میں ہے کہ آپ کے آٹھ لڑکے تھے جن کے نام یہ ہیں امام محمد تقی، ہادی، علی نقی، حسین، یعقوب ، ابراہیم ، فضل ، جعفر۔

لیکن علامہ محمد بن محمد نعمان بغدادی المتوفی ۴۱۳ء ہجری المقلب یہ شیخ مفید علیہ ا لرحمتہ۔کتاب ارشاد ۲۷۱۔۳۴۵ میں اور تاج المفسرین، امین الدین حضرت ابو علی فضل بن حسن بن فضل طبرسی المشہدی صاحب مجمع البیان المتوفی ۵۴۸ء ء کتاب اعلام الوری، ۱۹۹ میں تحریر فرماتے ہیں۔ کان للرضامن الولد ابنہ ابر جعفر محمد بن علی الجواد لا غیر ۔حضرت امام محمد تقی کے علاوہ امام علی رضا علیہ السلا م کے کوئی اور اولاد نہ تھی یہی کچھ کتاب عمدة الطالب صفحہ۱۸۶ میں ہے۔

حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ سےجب لوگوں کی توقعات غلط ثابت ہونے لگیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ وہ حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ آپ کوبطور تحفہ جو انگور پیش کیے گئے تھےان میں زہر تھا اوراسی زہر کے اثر سے ۱۷صفر ۳۰۲ ہجری میں حضرت امام موسٰی رضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے شہادت پائی۔ مامون نے نےبہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشوکت کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔